وہ ہٹا رہے ہیں پردہ سرِعام چپکے چپکے
کوئی قتل ہو رہا ہے درِِبام چپکے چپکے
یہ جھکی جھکی نگاہیں، یہ حسین حسین اشارے
کہیں لے نہ جائیں میری جان چپکے چپکے
کبھی شوخیاں دکھانا، کبھی ان کا مسکرانا
یہ ادائیں کر نہ ڈالیں میرا کام چپکے چپکے
یہ جو ہچکیاں مسلسل مجھے آ رہی ہیں محسن
کوئی لے رہا ہے شاید میرا نام چپکے چپکے