کچھ تو ہوا سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ رک گئی گردش ماہ و سال بھی
آواز کے ہمرا سراپا بھی تو دیکھوں
اے جان سخن میں تیرا چہرا بھی تو دیکھوں
یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے اس شخص کو تڑپتا بھی تو دیکھوں