چہرہِ مہتاب پر اشکوں کی روانی یاروں
جیسے چشمے سے نکلتا ہوا پانی یاروں
اسکی آنکھوں میں جو پھیلا ہوا کاجل دیکھوں
یوں لگے کھو گئ اندھیروں میں رانی یاروں
لب گلابوں کی طرح اور مہکتے ہوئے لفظ
کیوں نہ ہر بات پر ہو اسکی مَن مانی یاروں
گرم موسم میں کوئ دھوپ کی چارد اوڑھے
ایسی ہوتی تھی اکثر اسکی نادانی یاروں
تزکرہ محبت پر گر اس سے کبھی چھڑ جائے
تو اسکے ماتھے پر جھلکتی تھی پریشانی یاروں
سخاوت ایسی کہ کوئ مول نہ لگائے اسکا
اور دل ایسا کہ جیسے کوئ راج دھانی یاروں
ہائے! یہ حُسن ، یہ نزاکت ، یہ عداوت اس میں
اور پھر اُبھرتی ہوئ اسکی جوانی یاروں
مجھے لگتا ہے کہ سب منسلک تھی اس سے
وہ جو سنتا تھا میں پَریوں کی کہانی یاروں
میں کیسے بھول سکوں گا وہ منفرد چہرہ
وہ ہمیشہ یاد رہے گا زبانی یاروں