یاد آیا مجھے شدت سے کسی کا چہرہ
میں نے دیکھا جو کبھی غور سے اپنا چہرہ
یہ الگ بات کہ جھونکے نے سعادت بخشی
لا کھ کم ظرف نے آنچل میں چھپایا چہرہ
ہاتھ پھیلا کے میرے سامنے سکے کے لئے
لے گیا مجھ سے میرے عمر وہ میلا چہرہ
آخر اکنائے گا اک روز اکیلے پن سے
ادھ کھلی کھڑکی سے تکتا ہوا آدھا چہرہ
جانتے تھے کہ مکمل نہیں دونوں بھر بھی
کے کے پھرتا رہا ہر ایک ادھورا چہرہ
حسن در اصل تغیر میں ہی پنہاں ہے نذیر
اس لئے میں نے بھی چہرے پہ سجایا چہرہ