حسن سے عشق سے چاہت سے پیار سے ڈر لگتا ہے
مجھے تیرے ہونٹوں سے خمار سے ڈر لگتا ہے
دل پھینک ہوں، مجنوں ہوں، دیوانہ ہوں میں
صحرا کی دھوپ سے سنگ سے اغیار سے ڈر لگتا ہے
ڈھلتے آفتاب کو دیکھ کر نم ہوتی ہیں آنکھیں میری
حسیں تو ہے کیوں مجھے زوال سے ڈر لگتا ہے
باغوں میں تنہا نہ کیا کر سیر اے صبا
مجھے تو نیت بہار سے ڈر لگتا ہے
رنگوں سے رنگیں ہے تیرے چہرے کی صباحت
قوس و قزاح کو بھی تیرے نکھار سے ڈر لگتا ہے
رات جب سپنوں میں آتی ہے تو
طلوع سے بیداری سے ٹوٹنے کے خواب سے ڈر لگتا ہے
یہ خوف و ڈر تو مٹادوں میں لیکن
افزان کو عشق سے عشق کے اظہار سے ڈر لگتا ہے