الجھی ہوئی باتوں میں وہ جذبات کہاں
جو بات زباں پہ ہے وہ اب راز کہاں
کچھ لمحے جو گزارے تھے تیرے پہلو میں
تپتے ہوئے صحرا میں اب وہ احساس کہاں
تشنگی باقی رہی ساتھ سمندر بھی رہا
جاتے موسم کی فضاؤں میں وہ پیاس کہاں
اب تیرا حسن ہے پھیکے گلابوں کی طرح
ڈوبتے چاند کی لالی میں وہ بات کہاں