کئ دنوں سے غزل کوئ بھی سنائ نہیں
اے دوست! مجھ کوتری یاد بھی تو آئ نہیں
ہے مختصر سا مراسم کا سلسلہ اپنا
ہے فون پر ہی فقط ویسے آشنائ نہیں
یہاں تو لوگ بچھڑتے ہیں عمر بھر کے لیے
اگر نہ بات ہو کچھ روز تو جدائ نہیں
بنا لوں کیسے بھلا اپنا ہمسفر تم کو ؟
تمھارے ساتھ تو اک شام تک منائ نہیں
یقین کرنے کو دل چاہتا تو ہے میرا
کہا جو تم نے تمھاری ہوں میں پرائ نہیں
یہ دوستی ہے محبت اسے نہیں کہتا
کہ میری نیند تو تم نے کبھی چرائ نہیں
مرے خیا لوں میں تم مونا لیزا جیسی ہو
نہ جانے کیا ہو جھلک تو کبھی دکھائ نہیں
یہ اچھے اچھے سے شعروں کے بھیجنا میسج
ہوں دونوں دوست بھی اچھے تو پھر برائ نہیں
میں آج کل بڑا مصروف ہوں کتابوں میں
سمیسٹروں سے تو ملتی کبھی رہائ نہیں
اب پیپروں کے ہی بعد ہوں گی تم سے سب باتیں
وہ ایک بات بھی جو آج تک بتائ نہیں