کاش میں اک عاشق نہیں تاجر ہوتا
یہ دل میرا محبت سے خالی ہوتا
میں پھرتا بازاروں میں نوٹ کماتا
دوڑتا پھرتا اور خاک اڑآتا
میرے دل میں کسی کا درد نہ ہوتا
میں رات کو کبھی بھوکا نہ سوتا
کچھ مجھے جہاں کی خبر نہ ہوتی
روتی ہے اگر دنیا تو رہے روتی
میں اپنی ہی دنیا میں مست ہوتا
نہ کسی کی یاد میں چین کھوتا
کاش میں بھی بھوک کا پجاری ہوتا
دل خلوص و وفا سے عاری ہوتا
زندگی کی کوئی جنگ نہ ہارتا میں
اگر محبت میں خود کو نہ مارتا میں
خوش لباس ہوتا اور خوش گفتار ہوتا
شہر کے معززین میں شمار ہوتا
میری زندگی کا کچھ تو معیار ہوتا
کسی کوتو مجھ سے پیار ہوتا
گر رکھتا میں اپنے گھر میں دنیا کی دولت
کتنوں کی ہی مجھے مل جاتی چاہت
ہم نے دیکھا ہے کہ سب محبت سے بیزار نکلے
سب لوگ ہی اس دولت کے طلبگار نہیں
اس ہوس دولت کے اب شکار ہم بھی ہیں
ہاں محبت سے بغاوت کو تیار ہم بھی ہیں