گلستان دل میں خزاں آئی ہے بہار سے پہلے
ہم کو نفرت ملی ہے پیار سے پہلے
وقت رخصت قریب آیا تو ہوا احساس
کاش اظہار محبت کر لیتے یار سے پہلے
گردن نہ کٹے گی تو رنج ہو گا تمہیں
پیارے خنجر تیز کر لو وار سے پہلے
نہ یہ سوچیں تھیں نہ ہجر یار کے غم
کتنے پر سکوں تھے ہم پیار سے پہلے
میں ہوں اگر آوارہ تو وجہ ہے حسن تمہارا
میں ایسا تو نہیں تھا تمہارے دیدار سے پہلے
امتیاز تیری اس سے نبھے گی بھی یا کہ نہیں
تو نے سوچ تو لیا ہوتا پیار سے پہلے