اے کاش گزر جاتے
واللہ کہ مر جاتے
دنیا سے تو جانا تھا
کچھ اچھا ہی کر جاتے
آنکھوں سے بھی وحشت تھی
زلفوں سے بھی ڈر جاتے
ضد تھی کہ نام اس کے
سولی پہ ہی چڑھ جاتے
ہر بات پہ اسکی ہم
غصے میں بگڑ جاتے
ضد ہی پہ جو اڑ جاتے
دنیا سے ہی لڑ جاتے
ہر چیز ہی واری تھی
دل آتے جگر جاتے
مایوسی سے ہرتے ہی
ہم لوٹ کہ گھر جاتے
ملاقات بھی تھوڑی سی
پل آتے گزر جاتے
کچھ کرتے زرا عشق اور
ہم ہو کے امر جاتے
لمحوں میں ہیں ہم بستے
لمحوں میں اجڑ جاتے
ہر سو رہی ہر جائی
کسی اک پہ ہی مر جاتے
کچھ پل کو ادھر گھومے
کچھ پل کو ادھر جاتے
تنہائی نہیں واں پر
جو لوٹ شہر جاتے