کبھی آنکھوں میں دونوں کی، سُہانے خواب ہوتے تھے
وہ کیا دن تھے کہ ملِنے کو، بہت بیتاب ہوتے تھے
کبھی نظریں جو مِلتی تھیں، اِک دوجے کی نظروں سے
چہرے کِھل سے جاتے تھے، اور دِل شاداب ہوتے تھے
ادھوری رہ ہی جاتی تھیں، ہمیشہ کچھ نہ کچھ باتیں
جھٹ سے بِیت جاتے تھے، جو پل نایاب ہوتے تھے
میں تنہا ہو سا جاتا تھا، اور اکثر کھو سا جاتا تھا
اگرچہ تھا وہیں ہوتا، جہاں احباب ہوتے تھے
کوئی دیوانہ کہہ دیتا، کوئی مجنوں بُلاتا تھا
مجھے سب یاد ہیں اب تک، جو تب القاب ہوتے تھے
لگا رکھتی تھی سینے سے، جس کو وہ سدا حاوی
اُس کتاب میں رکھے ، میرے گُلاب ہوتے تھے