کبھی اقرار کرتا ہے ، کبھی انکار کرتا ہے
ہمارا جینا دنیا میں وہ یوں دشوار کرتا ہے
بپا وہ فتنہ ء محشر جمال یار کرتا ہے
کوئی مجنوں پھر اب نالہ پس دیوار کرتا ہے
عیاں دنیا میں اپنی خوبیء کردار کرتا ہے
محبت کا کسی سے جو کوئی اظہار کرتا ہے
صعوبت کے وہ دریا کو خوشی سے پار کرتا ہے
اسے راحت نہیں ہوتی جو آنکھیں چار کرتا ہے
علاج اس کا مسیحا سے کسی صورت نہیں ممکن
جسے بیمار تیرا دیدہ ء ہشیار کرتا ہے
سلوک ایسا کیا تم نے ہمارے ساتھ الفت میں
حیا والا وہ کرتا ہے نہ با کردار کرتا ہے
وفا تو مانگتی ہے جانثاری کربلا کی سی
سر منبر تو اے واعظ ! عبث گفتار کرتا ہے
تری شوخی میں پنہاں ہے یقینا پھر نیا فتنہ
کوئی تو بات ہے کیوں اس قدر اصرار کرتا ہے
جسے فرہاد کی اور قیس کی سیرت ہو ازبر، وہ
محبت کے چمن کو خون سے گلزار کرتا ہے
شب غم آہ اٹھتی ہے عجب ہر اک بن مو سے
نکلتا ہے جو دم فریاد کی تکرار کرتا ہے
بھروسے کے نہیں لائق کبھی وہ شخص دنیا میں
کمینہ ہے وہ دشمن جو کہ چھپ کے وار کرتا ہے
خدا کی رحمتیں رومی ! مقدر اس کا بنتی ہیں
ندامت سے اگر گریہ کو ئی بدکار کرتا ہے