کبھی اپنے خیال سے مل کر خیال تو پوچھا کر
مجھ میں ہی تو ملے گا مزاح تو پوچھا کر
تم بچھڑکے بھی دل میں تھے دھڑکن کی طرح
دُکھتی رگوں کی تپش کا نزاع تو پوچھا کر
لب کشائی میں بھی اب وہ شجاعت ہی نہیں
چہرہ افروزی کا بھی کہیں ملال تو پوچھا کر
اُس دید و شنید کے بعد کیا کچھ نہیں ہوئا
کہاں کہاں بھڑک اٹھا ہے اشتعال تو پوچھا کر
وہ اضطراب کے جسم بھی ٹوٹ کر بکھرتے ہیں
کبھی بارشوں میں جنبش کا حال تو پوچھا کر
کیا غم آشنائی بھی بقا دیتا ہے سنتوشؔ
ہم نے کیسے کاٹی زندگی کمال تو پوچھا کر