کبھی شکوے کبھی نالے کبھی آه ستم نکلے
وہیں پی روک رکھا تھا جو ھونٹوں پر تھا دم نکلے
پسارے دامن حستی عبادت کو ہم نکلے
ہزاروں خواہشیں ایسی کے ہر خواہش پی ڈیم نکلے
پرے ہو شادی و غم سے جنوں کا عالم وحشت
اٹھے جب بھی قدم میرے تو بس دیر و حرام نکلے
یہی تو غیرت چشم و نظر کی آزمائش ہے
نگاہے شوق کی کیوں تشنگی آنکھوں سے کم نکلے
گلہ نکلے نہ لیب سے ہونٹھ اپنے سی لئے لیکن
چھلک آے جو دو آنسوں بڑے ہی بے شرم نکلے
ہزاروں غم سے حاصل تھے یہ موتی جو بہے میرے
دل بیتاب کی حصرت کو یہ بھی کر کے نم نکلے
فلق پی چاند تاروں نے بکھیرے اپنے جلوے ہیں
جو تو بھی چھت پہ آ جاۓ تو آنکھوں کا بھرم نکلے
ہمارے وصف کی اوقات مے مرزا کہاں آتے
بڑی کوشش کی اصغر نے مگر غالب سے کم نکلے