کبھی پاس آؤ تو تمہیں حال سناؤ
کیسے گزرے ماہ و سال بتاؤ
پتھر سا دل لیے میں پھرتی رہی
کیسے ٹوٹ گیا پتھر وہ بات بتاؤ
چادر اُوڑھ کر چہرہ تو چھپا لیا
آنکھوں سے کیسے ہوئی برسات بتاؤ
تمہارے لہجے میں وہ کس کا لہجہ بولتا رہا
تمہیں وہ لفظ یا ُاس شخص کا نام بتاؤ
قطار میں کتنے ہی لوگ آ رہے تھے
کیسے کاٹا اک شخص کے لیے وہ انتظار بتاؤ
رات کے بارہ بھی بج گئے اب تو
میں ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں سب کو کیسے بتاؤ