کبھی گوہر سمجھتے ہیں کبھی پتھر سمجھتے ہیں
مرے اپنے بھی اب ایسا مجھے اکثر سمجھتے
عجب ہے زائیقہ انکا عجب ہے سوچ لوگوں کی
میری میٹھی سی باتوں کو بھی یہ خنجر سمجھتے ہیں
جہاں ہو پیار اک جہتی میں اس کو گھر سمجھتا ہوں
نہ جانے کیوں یہ دیواروں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں
مجھے چھو کر نہیں دیکھا مجھے پاکر نہیں دیکھا
بنا سمجھے بنا سوچے مجھے پتھر سمجھتے ہیں
حیا عورت کا زیور ہے وفا عورت کی زینت ہے
یہ کیوں بیجان چیزوں کو زور و زیور سمجھتے ہیں
یہ دل سے آنکھ کا رشتہ بڑا نازک سا ہوتا ہے
نہ وہ اندھر سمجھتا ہے نہ یہ باہر سمجھتے ہیں
پر کلو فکر کو شایان اپنی شاعری پڑھکر
یہاں اہلِ سخن اشعار بھی بہتر سمجھتے ہیں