کب تجھے یار کبھی میں نے شکایت کی ہے
ٹوٹ کے تم کو ہی چاہا ہے محبت کی ہے
یہ الک بات کہ سمجھا نہیں تم نے مجھکو
میں نے بے لوث محبت سے عقیدت کی ہے
پیار کو کھیل سمجھ کر ہی ہے کھیلا تم نے
تم نے ہر بار عداوت ہی عداوت کی ہے
کر سکا پیار سے ناکام نہیں توں مجھکو
اپنا کرکے ہی دبازت سے شقاوت کی ہے
کہہ دیا ہے کہ محبت نہیں کرنی تم سے
آخری بار شرافت سے شرارت کی ہے
کی ہے فریاد خدا سے تجھے پانے کے لیے
تم نے دیکھا نہیں قرآں کی تلاوت کی ہے
خود چلا آتا ترے پاس بلا ہی لیتے
تم نے ناحق ہی ادھر آنے کی زحمت کی ہے
پیار کرتا تو نہیں کوئی گنہ کر لیا ہے
میں نے پوجا تو نہیں تیری عبادت کی ہے
ہر کسی سے کی محبت ہے شرافت کے ساتھ
تیرے شہزاد نے دلوں پہ حکومت کی ہے