کب زخم یہ غیروں کو دکھانے کے لئے ہیں
خود اپنی نگاہوں سے چھپانے کے لئے ہیں
غم زیست کا حاصل ہے تو پھر غم سے مفر کیا
یہ داغ تو سینے میں سجانے کے لئے ہیں
ہم جور و جفا سہنے کی خاطر ہوئے مخصوص
اور مہر و وفا سارے زمانے کے لئے ہیں
احباب کی خاطر پہ نہ یہ بات گراں ہو
کیا ناز ہی وہ ہم کو دکھانے کے لئے ہیں
یہ ذوقِ سخن گوئی ہے سرمایۂ تسکین
کب شعر یہ محفل میں سنانے کے لئے ہیں