کب پھول کھلیں شغل چھڑے جامہ دری کا
دیوانوں کو چسکہ ہے اسی خوش خبری کا
سوئے تھے سر شام کھلی پچھلے پہر آنکھ
منہ دیکھ کے اٹھے ہیں چراغ سحری کا
کچھ اپنی طرف میری نگاہوں سے بھی دیکھو
اس رخ سے بھی اک باب کھلے خود نگری کا
ناساز ہوائے پر پرواز نہ ہو جائے
موسم تو گیا خیر سے بے بال و پری کا
یہ چاند یہ سورج یہ اندھیرا یہ اجالا
منہ دیکھ رہا ہے سفری ہر سفری کا
قائم نہیں رہتی ہیں کسی شے پہ نگاہیں
اب کوئی ٹھکانا ہے پریشاں نظری کا
فطرت ہی سے ملتی ہے رضاؔ داد سخن بھی
جب فرض ادا ہوتا ہے پیغامبری کا