نظر میں ظلمت بدن میں ٹھنڈک، جمال کتنا عجیب سا تھا
میں اس کی چاہت میں گھر سے نکلا، تو حال کتنا عجیب سا تھا
نہ میں نے اسے خطوط لکھے، نہ اس نے میری پناہ چاہی
دونوں کو اپنی بے خودی پے ملال کتنا عجیب سا تھا
وہ اپنی راتوں میں چاند دیکھے، میں اپنی راتوں میں اس کو سوچوں
بدلتے لمحوں میں سوچ کا یہ وصال کتنا عجیب سا تھا
سفر اکیلے ہی کاٹ لو گے، میں نے پوچھا تو رو دیا وہ
جواب کتنا عجیب سا تھا، سوال کتنا عجیب سا تھا