مجھ سےکٹتی ہے کہاں رات بھی ،تنہائی بھی
کتنا مغرور ہے اب میرا وہ ہر جائی بھی
کتنا اچھا ہے جو لوگوں نے مجھے نام دیا
مفت ملتی ہے کہاں عزتِ رسوائی بھی
جس کو ماں بن کے ہے سینے سے لگایا ہر دم
اچھا سمجھے ہے کہاں مجھ کو مرا بھائی بھی
اس کے جاتے ہی چلی جاتی ہیں سانسیں میری
روٹھ جاتی ہے مری زیست کی شہنائی بھی
لاکھ الزام لگالے وہ مجھے فکر نہیں
میرے احباب جو کرتے ہیں پزیرائی بھی