کتنا نادان ھوں میں
Poet: امن وسیم By: امن وسیم, ملتانکتنا نادان ھوں میں دل لگانا چاھتا ھوں
جلتے سورج کو میں ھاتھوں پہ سجانا چاھتا ھوں
کھلے گلاب کو بھی چومنے کی خواھش ھے
اور کانٹوں سے بھی دامن کو بچانا چاھتا ھوں
چھپاۓ چھپ نھیں سکتی محبت جانتا ھوں
میں پھر بھی اسے سب سے چھپانا چاھتا ھوں
ناممکن ھے کہ محبت میں کوئی غم نہ ملے
میں نا ممکن کو اب ممکن بنانا چاھتا ھوں
میرے غصے کو محبت میں بدل سکتا ھو
سنگ ایسے شخص کے جیون بتانا چاھتا ھوں
اس نے پوچھا ھے تجھے مجھ سے پیار کتنا ھے
میں دل کو چیر کے اس کو دکھانا چاھتا ھوں
بڑی ظالم ھے دنیا یہ کبھی ملنے نھیں دے گی
میں پھر بھی اس سے ملنے کا بہانا چاھتا ھوں
میرا محبوب آ رھا ھے آج پہلی بار
میں اس کی راہ میں پلکیں بچھانا چاھتا ھوں
جو زباں دے دے میرے دل کی ھر اک خواھش کو
میں اک ایسی غزل اس کو سنانا چاھتا ھوں
بہت تڑپا ھے دل اس کی جدائی میں امن
بے دھڑک اس کو سینے سے لگانا چاھتا ھوں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






