کتنی بیزار ہوں جہان سے آج
ایک صحرا میں امتحان سے آج
میری آنکھوں میں اب بھی زندہ ہے
اس کی چاہت کا امتحان سے آج
کبھی فرصت ملے تو پڑھ مجھکو
میں بھی تیری ہوں داستان سے آج
اپنی اپنی ہی سب کی چاہت ہے
اپنے اپنے جو ہے گمان سے آج
میں نے دیکھا ہے غیر کے در پر
وہ جو میرا تھا ہم زبان سے آج
بیچ دریا بھی سب سلامت ہیں
میری کشتی کے بادبان سے آج
پھر سے ماضی میں لو ٹ آؤ نا
چھپ کے بیٹھی ہے وہ مکان سے آج