کتنی بے قدر سی یہ رفاقت ہے تمہاری
اخلاص کی جزبوں میں عداوت ہے تمہاری
پھولو کی نمائش میں یوں بن ٹھن کے چلے ہو
ہم سے کی گلابو نے شکایت ہے تمہاری
اک موج تبسم کا سمندر ہو رواں تم
اک میں ہوں ستم روگ! عنایت ہے تمہاری
جھٹکا کہ یوں ذلفو کو غضب کرتے ہو مجھ پر
ہر ایک ادا میں شوخ قیامت ہے تمہاری
یخ بستہ دسمبر کی کہر راتو کا منظر
ہر سمت خزاں میں یہ شباہت ہے تمہاری
پنجاب کی سردی ہو کراچی کی ہو شامیں
ہر طرح کے موسم میں علامت ہے تمہاری