کتنی تاریک ہوں ضیا ہو کر
عشق تیرے میں مبتلا ہو کر
میرے سینے میں دوڑتا ہے لہو
میری سانسوں میں وہ ہوا ہو کر
آج کشمیر ہو رہا ہے لہو
کیوں تو مجبور ہے خدا ہو کر
میرے ہونٹوں پہ جو رہے گا سدا
اب بھی مچلے گا وہ دعا ہو کر
امر کر لوں گی اپنی ہستی کو
وشمہ چاہت میں انتہا ہو کر
.
اپنی ہستی میں وہ فنا ہو کر
"جا رہا ہو کوئی خفا ہو کر"
کتنی رسوائی مول لی ہے یہاں
یادِ جاناں میں اب تباہ ہو کر
اس کی آنکھوں سے گر گئی ہوں یہاں
اپنے دشمن کی بد دعا ہو کر
ایک دن تو ضرور سنبھلے گا
عزم و ہمت میں مبتلا ہو کر
حوصلے سے تو کام لے وشمہ
بن کے ہونٹوں پہ رہ