کتنی نہ اپنے جیون میں گمنامی لیتے ہیں
خود کھوکر جہاں سے حالت الہامی لیتے ہیں
ہو سکتا ہے زمانہ مرنے کے بعد ڈھونڈے
چلو آج جیتے جیء ان کی سلامی لیتے ہیں
یہی آزاد ہوائیں شاید ہمیں پسند ہی نہیں
کہ اداؤں سے جاکے ہر بار غلامی لیتے ہیں
کروں گا امتیاز اپنا دکھ اگر موقعہ ملا تو
تب تک پورُ کی پلکوں سے روانی لیتے ہیں
زندگی کا اتہاس مل کر ہی نموُد ہوتا ہے
بچھڑنے والے تو سب راہ انجانی لیتے ہیں
سوچتا ہوں کہ اپنا حال بے مروت کو نہ کہوں
لیکن خیال سنتوشؔ وہی روانی لیتے ہیں