سخن لکھتا ہوں، لفظوں سے مرید کرتا ہوں
نیا شاعر ہوں، شاعری بھی جدید کرتا ہوں
جس کام سے نہ ملے مجھکو، پذیرائی ذرا بھی
اس کام کو میں ضد میں، مزید کرتا ہوں
مغموم سے چہرے مجھے، بھاتے نہیں ہیں
آئینے سے ذرا کم ہی، گفت و شنید کرتا ہوں
لوٹانے کا ہوں قائل، قرض ہو کہ احساں ہو
محبت ہو کہ نفرت ہو، بہت شدید کرتا ہوں
عشقِ حقیقی میں جیسے، اک رب کو مانتا ہوں
مجاذی عشق میں یہی، عملِ توحید کرتا ہوں
لکھتا ہوں شبِ تنہائی میں، اکیلا پن میں حاوی
شاید وہ سمجھ جائے، یہی اُمید کرتا ہوں