شکوۂ یار ہم کریں کیسے
زخم سینے کا ہم بھریں کیسے
مہرباں ہوگئے وہ غیروں پر
بات سچ ہے مگر کریں کیسے
وہ تو آئے گی وقت پر اپنے
موت کی چاہ ہے، مریں کیسے
ہر ستم ہنس کے سہہ لیا ہم نے
اب کسی بات سے ڈریں کیسے
نہیں فرصت غمِ زمانہ سے
تیری چاہت کا دم بھریں کیسے
ہر قدم پر ہے تیرا ساتھ اگر
ہم مصائب سے پھر ڈریں کیسے
وہ ہمارے ہیں اُن سے ہم یاسرؔ
کوئی شکوہ گلہ کریں کیسے