کریں گے وہ حقیقت کو قبول آہستہ آہستہ
سمجھ جایںٔ گے اُلفت کے اصوُل آہستہ آہستہ
ہرے ساون کی ہر اِک بوُند گویا دِل پہ گِرتی ہے
کِھلا جاتا ہے میرے دِل کا پھوُل آہستہ آہستہ
ابھی بھاتی ہے تجھ کو رونقِ دنیا بہت لیکن
لگے گا تجھ کو بھی سب کچھ فضوُل آہستہ آہستہ
کہاں پہلی نظر میں ہم نے اپنے دِل کو ہارا تھا
ہویٔ تھی ہم سے بھی چاہت کی بھوُل آہستہ آہستہ
ابھی تازہ محبت ہے ذرا باسی تو ہونے دے
لگیں گے پھوُل بھی تجھ کو ببوُل آہستہ آہستہ
نیا ہے شہر میں ، اُس کو ہوا دُنیا کی لگنے دو
بدل جایںٔ گے سب اُس کے اصوُل آہستہ آہستہ
میں اکثر سو چتی رہتی ہوں میرے شیشۂ دِل پر
نہ جم جاۓ کہیں لمحوں کی دھوُل آہستہ آہستہ