کر کے نفرت کا وہ سامان اگر جائیں گے
ہم غلامانِ محبت ہیں بکھر جائیں گے
ہم سے اک بار نگائیں تو ملا کر دیکھو
اجنبی! تیرے مقدر بھی سنور جائیں گے
ہوا کے دوش پہ اڑنا تو نہیں سیکھا تھا
پھر بھی ہم چاند کے اس پار اتر جائیں گے
سرابِ وقت کا دریا مری آنکھ اگر
اس میں پھیرے جو سمندر تو کدھر جائیں گے
ایک دل ہے، چلو کرتے ہیں اسے نزرِ وفا
دکھ تو یہ ہے کہ وہ لے کر بھی مکر جائیں گے
شوق پرواز میں پر اپنے کٹا کر وشمہ
ہم تو صیاد کے ہاتھوں میں ہیں مر جائیں گے