کوئی موج چلی ہے میرے من کے اندر، سکون سارا بہہ گیا
وہ لوٹ گیا کچھ کہے بنا، میں اس کو تکتا رہ گیا
لکھا نہ ہو جو نصیب میں، کبھی ملتا نہیں چاہے جو کرو
میرے سارے دکھوں کو سن کے، اتنا ہی مجھ سے وہ کہہ گیا
نہ سوچ سکوں نہ چاہ سکوں، میرا اپنے آپ بھی حق نہیں
ہر چوٹ پہ میں مسکراہ اٹھا، ہر درد ہنس کے میں سہہ گیا
میرے ارد گرد ہجوم تھا، سب چھوڑ چلے جب وقت پڑا
میرے ساتھ ساتھ چلا تھا تو، میرے ساتھ ہی تنہا رہ گیا
کسی رتیلے محل کی مانند، زلفی بھی کتنا کم ظرف نکلا
حالات کی پہلی آندھی سے ہی، یکلخت ایسے ڈھہ گیا