کسی کو دل میں بسا کے ہم نے نصیب اپنا جگا لیا
نہ فکرِ ساقی نہ فکرِ مینا غموں سے دامن چھڑا لیا
بھلے نظر سے ہی دور ہیں وہ مگر ہماری نظر میں ہیں
انہیں نگاہوں کی پتلیوں کا تو تارا ہم نے بنا لیا
نہ سوچا سمجھا نہ دیکھا بھالا ڈگر پہ اُن کی چلا گیا
یوں ہی تو بس بے خودی میں ہم نے تو چوٹ گہری ہی کھا لیا
یہ ہی جو اپنی ہے بیقراری کہ ماہی جیسے بے آب ہو
یہی تو دن رات کا فسانہ اِسی میں جی کو لگا لیا
نہ اثر کو قیس سے ہے مطلب نہ دشت وصحرا کی سیر کی
مٹا دیا جب خودی کو اس نے تو راز سارا ہی پا لیا