کسی کو سُہاؤں سے ضد اچھی نہیں لگتی
مجھے تو چاہوں سے ضد اچھی نہیں لگتی
جہاں مجبوری جتاکر کچھ جائز نہ کریں
ایسی اداؤں سے ضد اچھی نہیں لگتی
درد کس طرح بھی ہو ابکہ ضبط کرلو
اپنی آہوں سے ضد اچھی نہیں لگتی
وہ جو سرکش گھوڑوں کے مانند ہو
اُن گناہوں سے ضد اچھی نہیں لگتی
ہوا نہ رک سکے تو اپنا رخ موڑلے
یوں راہوں سے ضد اچھی نہیں لگتی
مجھے اس جنم پہ بھروسا ہے سنتوشؔ
انہیں باراہوں سے ضد اچھی نہیں لگتی