کسی کی آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
ہمارا کوئی بھی ہمدم نہیں ہے
کسی کی زلف بھی برہم نہیں ہے
ہمارا کوئی بھی محرم نہیں ہے
بھڑک اُٹھیں گے تیرے دل میں شعلے
یہ آنسو ہیں کوئی شبنم نہیں ہے
اسے تم زندگی کہتے ہو یارو
کہ جس میں کوئی رنج و غم نہیں ہے
وہ قومیں خود ہی مر جاتی ہیں اک دن
کہ جن میں کوئی زیر و بم نہیں ہے
سفر میں کوئی دلچسپی نہ ہو گی
اگر رستوں میں پیچ و خم نہیں ہے
ستم سے یوں توجہ تو ملی ہے
ستم یہ ہے ستم پیہم نہیں ہے
نہ ہو جس کو گناہوں پر ندامت
وہ سب کچھ ہے مگر آدم نہیں ہے
یہ دل کے زخم ہیں اے میرے بھائی
اور ان کا کوئی بھی مرہم نہیں ہے
مجھے بھی سب نظر آتا ہے اِس میں
یہ میرا جام جامِ جم نہیں ہے
یہ میخانہ ہے میخانہ اے یارو
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے