کسی کی بیوفائی کو اب تک نا وہ بھلا سکا
میری محبت کا پرچم اب تک نا وہ ہلا سکا
وہ دعوے وہ قسمیں وہ وعدے جھوٹے تھے کیا
جنہیں اب تک نا وہ صفاء ہستی پر لا سکا
پل میں بدلتے لہجے موسموں کی طرح
اپنی محبت کا یقین ابھی تک نا وہ دلا سکا
یقین مرنا آسان ہوگا ایسی زندگی سے
میری زندگی میں ابھی تک نا وہ خوشی لا سکا
دنیا سے کیونکر میں لڑوں لکی
میرے لیے ابھی تک نا وہ بنا اک گھونسلا سکا
کسی کو اپنا کہوں تو ساتھ بھی دینا پڑتا ہے
میرے ساتھ ابھی تک نا وہ اپنے چند قدم چلا سکا
کتنی خواہش تھی ہاتھوں میں مہندی لگانے کی
لیکن ابھی تک میرے لیے چند پیسوں کی مہندی نا وہ لا سکا