کسی کی نظر کرم نے سوئی ہوئی تو قسمت جگا دیا
جو درد سے آشنا نہیں تھے انہیں کو بسمل بنا دیا
کبھی مَچَلنا کبھی تڑپنا کبھی سسک کر آہیں بھرنا
یہی تو دن رات کا فسانہ اسی میں جیون بتا دیا
کبھی خرد کے ہوئے نہ تابع جنوں میں گزری یہ زندگی
یہ ایسی تھی کشمکش کہ جس نے وفا میں جینا سکھا دیا
کبھی زباں بھی ہلی نہ کوئی ہوئی نہ کوئی بھی گفتگو
ہوا اشارا کبھی تو ایسا کہ ماجرا سب سنا دیا
کبھی گزرنا بھی دل سے ایسا نہ کوئی آہٹ سنائی دے
کبھی تو آواز کوئی ایسی کہ اک کرشمہ دکھا دیا
سناؤں کس کو میں حال دل کا ملے نہ کوئی بھی اہل دل
کہ اہل دل کی تلاش میں ہی تو اپنا سب کچھ لٹا دیا
کبھی بھنور میں پھنسی جو کشتی ملا سہارا نہ جب کوئی
تو ان کی نظر کرم نے ڈوبی ہوئی وہ کشتی چلا دیا
تجھے اثر کیا خبر نہیں ہے کہ ٹوٹنے پر یہ دل تیرا
اسی سے نازاں ہوجائے کوئی کہ ہاری بازی جتا دیا