کسی کے درد کو سینے میں پالتا کیوں ہے
نئے وبال میں وہ خود کو ڈالتا کیوں ہے
پسند ہے جو اسے خود رہے غلاظت میں
شریف لوگوں پہ چِھینٹے اُچھالتا کیوں ہے
کسی سفینے کو ویران سے جزیرے میں
جو لا کے چھوڑ دیا تو سنبھالتا کیوں ہے
سمجھ سکا نہ کوئی اس کے فلسفے کو کبھی
وفا کو، مہر و محبّت کو ٹالتا کیوں ہے
کوئی بتائے کہ بیٹا جوان ہونے پر
ضعیف باپ کو گھر سے نکالتا کیوں ہے
کسی کا دامنِ دل تو خدا خوشی سے بھرے
مجھے ہی درد کے سانچے میں ڈھالتا کیوں ہے
رشید طرزِ عمل تجھ کو یہ نہیں جچتا
جو راز، راز تھے کل تک اُگالتا کیوں ہے