کس دلکشی پر فدا ہو بیٹھا ہے
وہ شخص آج جدا ہو بیٹھا ہے
دوسرے جہاں کو بسانے کی خاطر
اپنے جہاں سے بِدا ہو بیٹھا ہے
وہ ٹمٹماتے ستاروں کی جھلک دیکھ
یہ آسماں اُس کی رِدا ہو بیٹھا ہے
اُس ذوق کی بدمزگی کے بعد
یہ سرُور بھی کہیں صدا ہو بیٹھا ہے
ایک قطرے کی طلب کو ہی سخی
ہر در کا پھر گدا ہو بیٹھا ہے
یہ بشر عشق جیسا بھی نہیں سنتوشؔ
میرا تو یار خدا ہو بیٹھا ہے