کس قدر تھا نا مخلص وہ میری سادگی کے ساتھ
اتنا بڑا فریب میری زندگی کے ساتھ
شاید ملی سزا میری ہی خطا کی مجھے
کہ تھا مجھے پیار اک اجنبی کہ ساتھ
دیتا رہا وہ دکھ مجھے کس بے رخی کے ساتھ
اتنا بُرا سلوک میری مخلصی کے ساتھ
وہ تو تھا نئی منزلوں کی تلاش میں
مجھے چھوڑ گیا وہ میرے غموں کے ساتھ
کیوں نہیں مٹاتا آ کر نشان اپنی یادوں کے اعجاز
شب و روز جیتا مرتا ہوں اس کی یادوں کے ساتھ