اس نے پوچھا تھامیں پاس نہ ہوا تو کیسے عید گزرے گی
مرے بن کیسےتری بہکتی زلف سلجھے گی
کس کے لئیے سجنی کاجل لگاؤ گی
کیسے تم عید کےلئےچوڑیاں لینےجاؤگی
کون تری پیشانی پہ زندگی گا نرم سا احساس دلائے گا
کون مری جان کہہ کر تجھ ساتھ لگائے گا
کس کو مہندی لگے ہاتھ دکھا کر عیدی لو گی
رنگ گہرانہ آنے پہ جھگڑا کس سے کرو گی
تب میں بن سوچے سمجے مسکرا دی
مان تھا محبت پہ تری
اب جو سارے خدشے ترے سچ ہوئے
دن عید کا آیا ہے
میں الجھے بال لئے,اپنی سرخ آنکھوں سے
اپنی خالی کلائی تک رہی ہوں
قسمت کا جال بچھ چکا ہے
ہاتھوں پہ رنگ نہیں ٹھنڈی پیشانی زرد ہوتی جارہی ہے
اور مجھے گلے لگانے والا گھر کاراستہ بھول گیا