بے محمد در حق بار نہیں
بے روا از کبریا دیدار نہیں
اے محقق ذات حق با صفات
بے تجلی ہیچ کہ اظہار نہیں
ہر دو عالم جز تمثل نہیں نہیں
مطلع جز صاحب اسرار نہیں
سوا جمال دوست جو دیکھے حرام
نزد بینا کار غیر اس کار نہیں
غرق ہوتا ہے جمال دوست‘ دوست
عاشق سرمست سے ہوتی گفتار نہیں
اسے زندہ نہ کہو اس جہاں میں
ہر کہ دربار جاناں جسے بار نہیں
دو عالم کا علم اس نقطے میں ہے
عارفوں کا کار با ضر وار نہیں
رو اپنا تو راجا اپنی طرف کر کہ
عارفوں کے پاس سوا دل بیدار نہیں
لقائے یار سے مسرور ہوتا ہے یار
ایسا نہیں ہے تو‘ وہ یار‘ یار نہیں