کل شب میں نے سپنا دیکھا
تجھ کو میں نے اپنا دیکھا
جو اپنا تھا دور ہوا ہے
دل میرا رنجور ہوا ہے
میں اب ان کی سیخ بنا ہوں
غم کو پینا سیکھ رہا ہوں
بھیگی بھیگی آنکھوں میں
نہ سپنا ہے نہ اپنا ہے
محشر جو لگایا جاۓ گا
انصاف دیلایا جاۓ گا
ان کو بھی بلایا جاۓ گا
ہم کو بھی بلایا جاۓ گا
ہم زخم دیکھاتے جايئں گے
ان کو یہ بتاتے جايئں گے
یہ زخم نہیں تلواروں کے
یہ زخم ہیں تیرے پیاروں کے
جو گلیوں بھی کہتے تھے
اب نام لیا تو ماریں گے
تنہا ہوں میں تنہائيوں میں
ڈوبا ہوں اب گہرائيوں میں
میرے دل کو بھی سلجھاؤ نا
میرے پاس کبھی تم آو نا
میں تم کو درد سناتا ہوں
کچھ مجھ کو بھی بتلاؤ نا
آنکھوں میں اب نیند نہیں
مجھے گہری نیند سلاؤ نا