کل مجھے تجھ سے پیار ہو کہ نہ ہو
دل مرا بیکرار ہو کہ نہ ہو
تتلیاں، پھول، رنگ اور خوشبو
اور باغ و بہار ہو کہ نہ ہو
جس میں سرگوشیاں کریں چھپ کر
موسمِ اعتبار ہو کہ نہ ہو
پیرہن سبز گھانس کا اوڑھے
یہ دلِ کوہسار ہو کہ نہ ہو
تجھ میں اِتنی کشش رہے نہ رہے
حُسن یہ تابدار ہو کہ نہ ہو
یہ جواں حوصلے رہیں نہ رہیں
باورِ کردگار ہو کہ نہ ہو
پیار تیرا مرا زباں زدِ عام
نادرِ روزگار ہو کہ نہ ہو
عشق تو خیر بڑھتا گھٹتا ہے
یہ رقابت ہزار ہو کہ نہ ہو
دل نہ تڑپے ترا بھی میرے لئے
اور مرا انتظار ہو کہ نہ ہو
یا محبت تو ہو بہت لیکن
وصل پر اختیار ہو کہ نہ ہو
آج لے لے جو مجھ سے لینا ہے
کل یہ دل جاں نثار ہو کہ نہ ہو