بندگی میں شاید کوئی کمی رہ گئی
نگاہ جو فرش پر جمی تھی جمی رہ گئی
سب کو پلاتے رہے بھر بھر کے جام
میں پیاسی تھی اور پیاسی رہ گئی
خوشی کے موقعے انہیں سارے عطا ہوگئے
نام میرے صرف اداسی رہ گئی
گھر سے نکلتے تھے نام تیرا لیکر
یہ عادت تھی عادت ہی رہ گئی
کبھی ہم بھی ان کی چاہت کے قابل ہوتے
جو بات خیالی تھی خیالی رہ گئی
آرزو تھی وہ بھی سنتے روداد مبین
خواہش دل کی تھی دل میں ہی رہ گئی