سحر جو تیرے تبسم کا استعارہ ہے
تو شام تیری گھنی زلف کا اشارہ ہے
جمال تیرا ہر اک رخ سے قابلِ تحسیں
کہ دستِ خاص سے قدرت نے خود سنوارا ہے
نثار ہیں تیرے قدموں تلے سبھی راہیں
کہ منزلوں نے تجھے بڑھ کے خود پکارا ہے
مگر یہ حسنِ مجسم کہاں نصیب اُسے
تیرا جلیس بہت گردشوں کا مارا ہے
نہ اُس میں ہے کوئی خوبی کہ جس پہ شیدا ہو
وہ دلربا جو دمکتا ہوا ستارہ ہے
قرار لوٹنے والے ذرا خیال تو کر
نہ تاب غم کی دلِ مبتلا کو یارا ہے
غریقِ بحرِ محبت ہی ہو نہ جاؤں کہیں
نظر سے دور بہت دور اب کنارہ ہے