جسے چھوا تھا اس نے بے خودی میں
وہی لمحہ ہے میری ہر خوشی میں
اسکی راہوں پہ جبیں جھکتی ہے
عمر گزری ہے اسی بندگی میں
خود کو جنت نشیں سمجھتا ہے
آ نکلتا ہے جو اسکی گلی میں
نہ ہی چھیڑو اسے تو بہتر ہے
ایک طوفاں ہے میری خاموشی میں
ایک اسکی کمی سی رہتی ہے
ورنہ کیا کچھ نہیں ہے زندگی میں
میں تو کب سے فنا کی راہ میں ہوں
وہ مجھے ڈھونڈتا ہے شاعری میں
یونہی دل دھڑکنے نہیں لگتا
کوئی تو بات ہے اس اجنبی میں