کوئی نازک دل آرائی بہت ہے
نہ کی جائے کہ رسوائی بہت ہے
یہ اب جانا کہ ہرجائی تو ہم ہیں
تجھے سمجھے تھے ہرجائی بہت ہے
اگرچہ ہے خبر ہے روح پرور
ڈراتی ہم کو تنہائی بہت ہے
ہیں جام آنکھیں تو مے آنسو ہی ہونگے
تو مے ہم نے بھی چھلکائی بہت ہے
شُگفتہ پھول بن جانے کی حسرت
کلی کملائی مرجھائی بہت ہے
وفا کا قتل اور معافی یہ کیا ہے
بھلا کیوں تم میں اچھائی بہت ہے
یہ سب تقدیر کا ہے کھیل جاناں
ملی دونوں کو تنہائی بہت ہے
گھڑی تھی ہم نے جو وہ بات جھوٹی
در آئی اس میں سچائی بہت ہے
ہے لگتی جتنی بے پرواہ یہ دنیا
حقیقت میں تماشائی بہت ہے
ہمیشہ ہم نے کی توصیف اپنی
خطا دوجے کی دھرائی بہت ہے
وہی ہیں لفظ جو سب بولتے ہیں
مری باتوں میں گہرائی بہت ہے
ندؔیم اب جاکے جنگل ہی بساؤ
شہر میں آبلہ پائی بہت ہے