کوئی نہیں
Poet: سلیم عشرت ھاشمی By: Saleem Ishrat Hashmi, Karachiکوئی تم سے اگر میرا پوچھے
تم کہہ دینا کہ کوئی نہیں
شا ئد رہی تھی ملاقات کبھی
پر ایسی اب تو با ت نہیں
یا ممکن ہو تو کہہ دینا
دوست میرا تھا کچّا سا
کچھ دور چلا اور چھوڑ گیا
تاکہ جھوٹ لگے یہ سچاّسا
وعدے تھے نہ قسمیں تھیں
نہ پیار کی کوئی باتیں تھیں
کہیں مل بیٹھے احوال کیا
بس رسمی سی ملا قاتیں تھیں
نہ چال دُلاری اُس کی تھی
نہ جُگنو اُس کا چہرہ تھا
نہ شان شہزادوں جیسی تھی
نہ لہجہ موتی جیسا تھا
کس رہ پر آ کر آن ملا
کس موڑ پر ہم کو چھوڑ گیا
سچ پوچھو تو یاد نہیں
خوابوں میں اُس کی صورت
شائد ہاں یا وہ بھی نہیں
کوئی ہم سے اگر تم کو پوچھے
ہم کہہ د یں گے کہ کوئی نہیں
شا ئد رہے تھے دوست کبھی
پر ہم کو تو کچھ یا د نہیں
ہم ہرگز یہ نہ بو لیں گے
کچھ خواب بُنے تھے ساتھ کبھی
آنکھ کھُلی اور ٹوٹ گئے
شائد کہیں ہو اب راکھ دبی
دِن اُس کے نام سے روشن تھے
نیندو ں میں پہرہ اُس کا تھا
کیا غنچے،خوشبو،شفق،دھنک
ھر شے پہ ڈیر ہ اُس کا تھا
منجدھارمیں ہم کوچھوڑ گیا
سب رشتے ناطے وہ توڑ گیا
پھر یاد ہمیں کیوں آتی ہیں
پیار کی جو بھی رسمیں تھیں
جو تم چاہتیں تو ممکن تھا
باتیں یہ تمھارے بس میں تھیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






