کوئی وعدہ وفا نہیں کرتے
ان سے پھر بھی گلہ نہیں کرتے
ہم سنا تے ہیں بارہا لیکن
حال دل وہ سنا نہیں کرتے
روز خوابوں میں ملنے آتے ہیں
ویسے ہفتوں ملا نہیں کرتے
کچھ تو ہو گا حسین قاتل میں
لوگ یوں ہی مرا نہیں کرتے
دیکھ کر بھی ہمارے زخموں کو
چارہ گر کیوں دوا نہیں کرتے
جو زمانے میں عام ہو جائے
اس روش پر چلا نہیں کرتے
بھر تو جاتے ہیں گہرے زخم سبھی
پر زباں کے بھرا نہیں کرتے
جان دیتے نہیں ہیں پیار میں جو
رسم الفت ادا نہیں کرتے