فسانہً زیست سے اُلجھنےکے بعد بھی ہم اجنبی ہی رھے
جذبہً سرشار محبت کا تنہائ میں بھی کوئ نام نہ لے
سرپٹ بھاگ رہا ھے ھواکے دوش پہ تخیل ندامت
کیسےہوا منہدم دل کا گھروندا تنہائ میں بھی کوئ نام نہ لے
تشنگی ایسی تھی عشق میں کہ مخبوس ہو گئے
آہ اُس دیوانہً دیدار یار کا تنہائ میں بھی کوئ نام نہ لے
دیار غیر سے لگتے ہیں شناسا سے نقوش بھی
اُس ساحر دیدہ ور کا تنہائ میں بھی کوئ نام نہ لے
“رقت سی طاری تھی جس بہلاوے کے بھنور میں “فائز
اُس لا جواب ہیتً ووجاہت کا تنہائ میں بھی کوئ نام نہ لے